نعتیہ کلامِ غلام مزمل عطاؔ اشرفی
روح پرور نعتیہ غزل اور نعتِ رسول ﷺ کا حسین انتخاب
غلام مزمل عطاؔ اشرفی (سہرسہ، بہار، انڈیا) کے زیرِ نظر نعتیہ کلام میں عشقِ رسول ﷺ کی لطیف کیفیات،
عرفانی نکات اور قلبی واردات نہایت خوب صورتی کے ساتھ نظم ہوئے ہیں۔ پہلی نعتیہ غزل میں عاشقِ صادق کے
دل پر حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے فیضانِ نظر کے جو اثرات مرتسم ہوتے ہیں، وہ اس انداز سے جلوہ گر ہیں کہ
ہر شعر قاری کے دل میں عاجزی، شکرگزاری اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کی نئی لہر پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں دو مستقل
نعتیہ نظمیں — ’’نعتِ رسولِ اکرم ﷺ‘‘ اور ’’نعتِ رسولِ کریم ﷺ‘‘ — میں
ذاتِ مصطفیٰ ﷺ کو مبداءِ تخلیق، سرچشمۂ ہدایت اور کائنات کی اصل روح کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ہر شعر گویا شیشہ نما آئینے کی طرح جلوۂ مصطفوی ﷺ کی کرنوں کو منعکس کر کے دل میں نور بھر دیتا ہے۔
نعتیہ غزل
غلام مزمل عطاؔ اشرفی
روحِ عدم میں بھر گیا اعلان آپ کا
بھولیں گے ہم کبھی نہ یہ احسان آپ کا
جس آن دل نے کھول کے دیکھا حریمِ جاں
رہتا ہے نور بن کے مرا دھیان آپ کا
صحرا تپیدہ جسم میں خیمہ بنا ہوا
پھرتا ہے ایک نفس میں وہ طوفان آپ کا
میں نے جلا کے خود ہی شبِ غم کی تیرگیاں
پایا کہ سب سے پہلا ولی مان آپ کا
بیدار ہو گیا میرے دل کا جہانِ خُلد
جب گونجنے لگا مرا ایمان آپ کا
جتنے بھی فتنہ ساز تھے بیٹھے رہے سدا
بھرنے لگا وجود میں ارمان آپ کا
ہاں، اَے عطاؔ یہ دل ابھی تک ہے اسیرِ سوز
لکھتا ہے ہر سخن میں وہ جذدان آپ کا
نعتِ رسولِ اکرم ﷺ
غلام مزمل عطاؔ اشرفی
شمس الضحیٰ بدر الدجیٰ نور الہدیٰ میرے رسول
مہرِ ازل، صبحِ ابد، نورِ خدا میرے رسول
انوارِ حق، صبحِ کرم، رستہ نما میرے رسول
اسرارِ دل، سرِّ ابد، نورِ دعا میرے رسول
آیات کی تفسیر میں جو نور کھلا ہے جا بجا
سرِ ازل، روحِ ابد، حسنِ رضا میرے رسول
تخلیق کی بنیاد میں جس نور کا ہے پہلا ظہور
“کُن” کی صدا، پہلی کرن، مبدا بقا میرے رسول
باطن کی گہرائی میں ہے جس نور سے شرحِ صدور
دل کے ورق پر وہ رقم، حکمِ ہدیٰ میرے رسول
معراج کی شب گونجی صدا جبریل نے رُک کر کہا
سدرہ سے جو آگے گیا، عینِ لقا میرے رسول
تیری ثنا جب بھی عطاؔ کرتا، رقم ہوتا کرم
ہر لفظ میں، ہر حرف میں، تیری دعا میرے رسول
نعتِ رسولِ کریم ﷺ
غلام مزمل عطاؔ اشرفی
سب نے نبی کی نعت کا مطلع سجا لیا
میں نے نظر میں گنبدِ خضریٰ بسا لیا
ماہ و نجوم و شمس و قمر، آفتاب سب
جس نے بھی دیکھا، آقا کو پردہ گرا لیا
جو بھی نبی کے عشق میں خود کو فنا کیا
وہ لذتِ حیات سے دامن چرا لیا
خاکِ مدینہ کیا تجھے تقدیر ملی ہے واہ!
جس نے بھی پایا، آنکھوں کا سرمہ بنا لیا
طیبہ میں مرنے والے سے پوچھو مزۂ موت
دیدِ نبی سے روح نے تسکین پا لیا
حسرت ہے میری آنکھ کو آقا کی دید کا
دنیا کی بے حیائی سے خود کو بچا لیا
پڑھ کر عطاؔ درود میں کرتا رہا رقم
حرفوں کو جوڑ جوڑ کے کیا کیا بنا لیا

Post a Comment